Skip to main content

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ والے اپنی زمینیں لالچ یا خوف سے دیتے رھے۔لیکن فیض محمد گبول نے انکار کردیا،جب ملک ریاض نے فیضو سے پوچھا "اتنے پئسے دے رھا ھوں آپ اپنی زمین کیون نہیں بیچھتے ،"تو فیضو نے جو جواب دیا تو وہ جملہ تاریخ بن گیا


فیضو نےکہا"ملک صاحب تو اتنے پیسوں تو اپنی ماں بیچھےگا"ملک ریاض کہا نہیں،میں اپنی ماں کیسے بیچھ سکتاں ھوں"تو فیضو نے کہا،"یہ زمیں میری ماں ھے میں اس کو کیسے بچھوں ،ماں کا سودا کوئی نہیں کرسکتا"،آج جب آپ اس گاؤں نور محمد گبول جائینگے تو لنگھیجی ندی کے کنارے بحریا ٹاون کی دیوار نظر آئیگی ،پہلے ملک ریاض کا منصوبہ یہ تھا کہ ندی کے کنارےکنارے،لنگھیجی ڈیم تک پورے علاقے پر قبضہ کیا جائے،جس میں فیض محمد گبول کی زمینیں،تین گاؤں ،اسکول اور قدیمی قبرستان آتے تھے۔سب کو بتا ہے کہ ملک ریاض کے پیچھے کون ھے،پوری سندھ حکومت،ملیر پولیس،ملیر ڈویلپمینٹ اتھارٹی،ریوینو ڈیپارٹمینٹ ،ملیر انتظامہ،دیسی دلال ملک ریاض کے ساتھ ہیں، ان کا مکمل سپورٹ اس قبضہ گیر کو حاصل ھے۔یہاں سے ووٹ لینے والے تمام نمائندوں کی بے بسی،لاچارگی اور چپلوسی قابل دید ھے،اسی ماحول میں فیض محمد گبول نے سب کو للکارا اور تاریخ میں امر ھو گئے ،جب اس کے بھائیوں نے مورثی وراثت سے اپنا حصہ ملک ریاض کو دباؤ میں اور لالچ میں آکر بیچھا تو اس مورثی حصے میں فیض محمد گبول کے چالیس ایکٹر آتے تھے، فیض محمد نے اپنا حصہ دینے سے انکار کیا




تو ملک ریاض نے راؤ انوار کے ذریعے پھر اس بوڑھے پر کیس داخل کیئے،گرفتار کیا لیکن اس نے مقابلہ کیا کورٹ کا رخ کیا ،۱۴ لاکھ لیکر ایک وکیل بک گیا،دوسرا وکیل کیا کیس جیت گیا،لیکن انتظامہ جو ملک ریاض کے فالتو نوکر کا کردار ادا کر رھے تھے،قبضہ دینے میں مدد نہیں کی۔ملک ریاض نے اس کی جگہ دوسری جگہ زمیں کی آفر ،بلینک چیک لکھ کر دیا،لیکن فیضو گبول نے انکار کیا اور کہا مجھے اپنی زمین چاھئے ۔کورٹ کے فیصلے کے باوجود ملیر انتظامیہ نے وہ زمین جس پر بحریا ٹاؤن نے قبضہ کیا تھا نہیں دلائی ،منتخب نمائندے بھی اپنی کھال بچانے کے وجہ سے خاموش رھے موت تک فیضو لڑتا رھا،انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی،ڈان کے فھیم الزماں خان،نازیہ علی،سچ ٹی وی کے زاھد کھوکھر،عوامی پریس کلب ملیر کے سامی میمن اور تحریک نسواں اس کے ساتھ تھے،اس سپورٹ نے اسے بہت حوصلہ دیا،۵ فروری کو فرینڈز ڈی کے دن اس مزاحمتی کردار نے دوستوں کو ھمیشہ کے لئے الوداع کہا دھرتی کو آخری بوسہ دیس دیا اور اسی قبرستان میں مدفن ھوا جو اس نے بحریا ٹاؤن کے قبضے بچایا تھا ،یہ لافانی کردار اپنی ھمت،بھادری اور مزاحمت کے وجہ ھمیشہ یاد رہےگا ۔فیض گبول تو امر ھوگیا،بہت سے لوگوں کو بتا نہیں کہ گبول قبیلے کا سردار کون ھے،لیکن فیض گبول کو سب جانتے کہ وہ ایک مزاحمتی کردار تھا آج پوری دنیا میں سوشل میڈیا کے ذریعے فیض کے بھادری اور مزاحمت کا چرچہ ہے،فیض محمد گبول تجھے سلام،چند پیسوں کے خاطر جن لوگوں اپنی ماں جیسی زمیں بیچھی،جنہوں نے ماں جیسی زمیں کا سودا آج وہ سب تیرے مزاحمت کے سامنے ہیچ ہیں،جن منتخب نمائندوں نے تیری مدد سے منھں موڑا وہ سب آپ گوٹھ آئینگے،تعزیت کرینگے ،فوٹو بنائینگے،چند جھوٹ موٹ کے ھمدردی کے بول بولینگے ،یہ سب ان کا دیکھاوا ھوگا،کیونکہ 2018 الیکشن کا سال یہ جو پبلک ھے سب جانتی ھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ديس پنهنجي مان ڌاريا ٿي ڌڪجي وڃون ،
پنهنجي مٽي جي خوشبوء لئہ سڪجي وڃون ،
يا فلسطينين جيئن ڦرجي وڃون ،
شل انهيء کان اڳي ڪاش وڙھندي مرون ،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فيض محمد گبول جنهن ڌرتي ماء جو حق ادا ڪيو ، ان ماء کيس ھنج ۾ وٺي ڇڏيو ۽ ھميشہ لاء امر ٿي ويو ، 
هرڪو ماڻھو پنهنجي اگھ اگهاڻو ،
جيڪو ماڻھو کین وکاٹو ،سوئی ماٹھو موتی داٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڪي ڪي ماڻهوَ تاريخ ٿين ٿا
گهايل ڌرتي جي سيني تي ڪا اهڙي 
چيخ ٿين ٿا
جا هر ڪنهن کي جاڳائي ٿي جا دنيا کي بدلائي ٿي


Comments

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...