Skip to main content

ایک تصویر ایک کہانی۔32

میں کتابوں کے دوکان میں جس شخص کے ساتھ بیٹھا ھوں یہ"عباسی کتاب گھر جھونا مارکیٹ "کے مالک حبیب حسین عباسی ہیں۔آج اس تاریخی کتاب گھر پر بات کرینگے،میرے والد صاحب سبزی منڈی میں کام کرتے تھے اور اس کی رھائش لیمارکیٹ میں تھی،کیونکہ لی مارکیٹ کراچی کے مضافات ،ٹھٹھ اور لسبیلہ کے لوگوں  کاایک  کاروباری مرکز تھا اور اب تک ھے۔ان علاقوں کے لئے بسیں یہاں سے چلتی تھیں اور آج بھی چلتی ہیں۔اس لیئے لی مارکیٹ اور جھونا مارکیٹ عیدین کے علاوہ دوسری تقریبات ،شادی بیاہ کی خریداری کے مرکز تھے،ساتھ ساتھ کریم اسٹوڈیو میں تصاویر کیچوانے کی سہولت تھی،بلوچی اور سندھی کے گانوں کے کیسٹ ملنے کی سہولت بھی تھی،۔جھونا مارکیٹ میں  مختلف بک شاپ جن میں عباسی کتاب گھر اور مکتبہ اسحاقیہ مشہور تھے۔جھونا مارکیٹ آدمی جائے اور پھول چوک پر کھتری کا حلوہ نہ کھائے اور گاؤں والوں کے لیئے حلوے کا تحفہ نہ لیے جائے تو بندہ گنہگار ھو جاتا تھا۔ساتھ میں نوری ھوٹل جہاں اکثر فلمی یونٹ کے لوگ رھائش پذیر ھوتے تھے ،کیونکہ ریڈ لائیٹ ایریا جسے حرف عام میں نپئیر روڈ کہا جاتا ھے



،نپئیر روڈ میں ریڈ لائیٹ کا علاقہ ھونے کے وجہ سے سندھ کے دوسرے شہروں ھر چکلے نام  نپئیر روڈ پڑا،چارلس نپئیر نے سندھ فتح تو کیا لیکن سندھ والوں نے بھی اس کے نام کے ساتھ انصاف کیا۔کراچی کے تمام راستوں کے پرانے نام تو تبدیل کیئے گئے ہیں لیکن اس روڈ کام نام تبدیل نہ ھوا،ساؤتھ نپئیر روڈ کا نام تبدیل ھوا،نپئیر مول کا نام تبدیل ھوا لیکن ریڈ لائیٹ علاقے کے وجہ یہ نام تبدیل نہ ھوا۔تو بات ھو رھی تھی جھونا مارکیٹ کے تاریخی کتاب گھر کی بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔میں اکثر کالج کے دنوں میں والد صاحب کے ساتھ عباسی کتاب گھر آتا تھا۔والد صاحب نے لیمارکیٹ کیا چھوڑی ھم نے بھی یہاں آنا بند کیا،جب میں اپنی کتاب "کراچی سندھ جی مارئی"کے سیکنڈ ایڈیشن کی تیاری کر رھا تھا اور کچھ اضافے کا خیال  بھی تھا،تو میرے ذھن میں عباسی کتاب گھر کا خیال آیا تو میں ۱۵ سال بعد دوست نذیر کاکا کے ساتھ جھونا مارکیٹ عباسی کتاب گھر پہنچا وہاں حبیب صاحب سے ملاقات ہوئی تو ھم ماضی کے یادوں میں کھو گئے ،حبیب کے ساتھ جو کچھری ھوئ اس کا لب لباب کچھ اس طرع ھے،"1910 میں ایک ھندو نے اسی جگہ اسٹیشنری کی دوکان کھولی،وہ حبیب حسین کے نانا غلام عباس دائود کا مقروض ھوا،1920 میں،قرض کے عیوض ھندو دکاندار نے دوکان غلام عباس کو دے دی۔غلام عباس کی بیٹی کی شادی عبدالرسول گجراتی سے ہوئی تو یہ دوکان  1928 میں غلام عباس نے اپنے داماد عبدالرسول کے حوالے کی ۔عبدالرسول اصل میں گوالیار کے گجراتی تھے مزدوری کے لیئے  کراچی کا رخ کیا،اس سے پہلے یہ دوکان غلام عباس کا برادرے نسبتی چلا رھے تھے،


اس کے وفات کے بعد یہ دوکان غلام عباس نے اپنے داماد عبدالرسول کو سونپ دی۔1928 میں دوکان کا نام تبدیل کرکے "عباسی کتاب گھر" رکھا اور اسٹیشنری کے ساتھ ساتھ یہ دوکان کتاب گھر مشہور ھوا۔عبدالرسول نے یہاں پر چھاپہ خانہ بھی کھولا ،اور اس کو ادبی بیٹھک بنایا،۔1988 میں عبدالرسول کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا حبیب حسین عباسی اس کتاب گھر کو چلا رھے ہیں۔اس کتاب گھر کو شرف حاصل ھے کہ یہاں پر مرزا قلیچ بیگ،فیض احمد فیض،پیر حسام الدین راشدی،مجید لاھوری،ڈاکٹر عمر بن دائود پوتا،علام رشید ترابی،عقیل ترابی،حفیظ ھوشیارپوری،مولانا غلام مصطفی قاسمی،علی احمد بروھی،حاجی مولا بخش سومرو،علی احمد تالپور،مخدوم طالب المولی،دین محمد وفائی، اور بہت سارے ادیب،دانشور،تاریخدان ادھر اکثر آتے تھے یہ کراچی سمیت سندھ کے دوسرے اضلاع سے آئے ھوئے ادیبوں اور دانشوروں کا ایک مقبول بیٹھک تھا،چپائی کا کام 1930 میں شروع کیا گیا،یہ سلسلہ اب تک جاری ھے،۔13 مارچ 1963 کو دمشق یونیورسٹی شام کے وائیس چانسلر"شیخ المنتصر الکتانی"بھی اس کتاب گھر تشریف لائے تھے۔


اردو بازار میں بک شاپ اور چپائی کام شروع ھوا تو  جھونا مارکیٹ کی کتابوں کی دوکانوں  کا کاروبار ماند پڑ گیا تو مکتبہ اسحاقیہ اور دوسرے ادارے  جھونا مارکیٹ سے اردو بازار منتقل ھوگئے،یہ تاریخی ورثہ حبیب حسین عباسی کی وجہ سے یہیں رھا،بقول ھن کے جب تک وہ زندہ ہیں یہ دوکان اسی جگہ رھے گی،جس جگہ 1910 میں قائم ھوا تھا۔اب اس کتاب گھر کو قائم ھوئے 108 سال ھو چکے ہیں،۔دعا ھے کہ ھماری یہ تاریخ اور یہ تاریخی ورثہ ھمیشہ قائم رھے،کلچر ڈیپارٹمینٹ کو چاہئے کہ اس کو قومی ورثہ قرار دے۔،،تحریر:گل حسن کلمتی۔

Comments

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...