Skip to main content

ایک تصویر ایک کہانی۔33


ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے



،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی فلموں کا یہ چاکلیٹی ھیرو میرے پسندیدہ ہیرو تھے۔رمضان سے پہلے آرٹس کونسل میں جب وسیم سے ملاقات ہوئی تو ھمیشہ کے طرع میں نے اس سے گذارش کی کہ “مجھے ٹائیم دیں تاکہ میں آپ کے یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب لکھوں،”اس نے کہا “اس وقت کچھ ٹی وی ڈراموں کے وجہ سے مصروف ہوں ،عید کے بعد ضرور ٹائیم دونگا”۔یہ عید اب کبھی بھی نہیں آئے گی،عید کے تیسرے روز 18 جون کو رضوان صابر نے فیس بک پر یہ دکھ بری خبر شیئر کی کہ،”وسیم راجہ دل کے دورے کے سبب ھم سے ھمیشہ کے لیے بچھڑ گئے ہیں”،موت نے میرے اور وسیم کے خواب کو پورا ہونے نہیں  دیا۔یہ



 خواب ،خواب ہی رھا۔وسیم جس کا اصلی نام غلانبی بارن(سندھی میں ٻارڻ)تھا،یہ سندھی راجپوت ہیں،وسیم کراچی کے پرانی بستی حاجی ابراھیم بارن گوٹھ لسبیلہ میں محمد عثمان بارن کے گھر25 اگست 1947 کو پیدا ہوئے،بارن(ٻارڻ) قبیلے پر مجھے لالوکیٹ والے لا ل محمد عرف لالو بارن یاد آئے،کیونکہ لالو کیٹ والے لالو کا تعلق بھی اسی گاؤں سے تھا ،لیاری ندی کے ایک کنارے لا لو کا گاؤں دوسرے کنارے زراعت کے لیے لالو کے کیٹ تھے،لالو اب میوہ شاھ میں منوں مٹی کے نیچے دفن ہے اور لالو کیٹ کب کا لیاقت آباد میں تبدیل ھو چکا ہے۔،آپ سوچ رھے ہونگے کہ لسبیلہ بلوچستان کا ایک ضلع ہے یہ کراچی میں لسبیلہ کہاں سے آیا،؟لسبیلہ کراچی میں جہاں آجکل بابر مارکیٹ ہے وہاں لسبیلہ کے جام فیملی کے میر ایوب عالیانی کا گھر تھا،ایوب علیانی ایک ھمہ گیر شخصیت تھے،کراچی کے سیاست کے ساتھ وہ ادبی حلقوں میں بہت مشہور تھے ،وہ اردو،سندھی اور فارسی کے شاعر تھے۔کراچی میں 1914 میں  قائم ہونی والی “انجمن  ترقی اردو “کے روح رواں جام ایوب عالیانی تھے،اور انجمن کے پہلے صدر تھے،(ایوب عالیانی کے سیاسی اور ادبی خدمات پر میرا ایک طویل مضمون میرے کتاب،کراچئ جا لافانی کردار میں موجو ھے )جام صاحب تعلق بلوچستان کے علاقے لسبیلہ سے تھا،اس کے رھنے اور بنگلے کے وجہ کراچی کا یہ علاقہ لسبیلہ مشہور ہوا۔بات ہو رھی تھی ماضی کے مشہور فلمی ہیرو وسیم کی،وسیم نے انٹر تک تعلیم حاصل کی اس کا ارادہ  پولیس لائین جوائن کرنے کا تھا،لیکن قسمت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔اس کا بڑا بھائی رمضان اس دور میں فلموں میں چھوٹے بڑے رول کرتا تھا،کبھی کبھار غلام نبی بھی بھائی کے ساتھ اسٹوڈیو جاتا تھا،اس دور میں منگھو پیر روڈ پر ھارون فیملی کا ایسٹرن فلم اسٹوڈیو اور چھیپا فیملی کا ماڈرن اسٹوڈیو مشہور تھے،غلام نبی نے ایک سندھی فلم”چانڈو کی”میں ایک چھوٹا رول ادا کیا ، وہ اسکول اور کالج کے زمانے میں اسکول اور کالج کے پروگراموں  میں اپنے جوھر دکھا چکا تھا۔اس نے اپنا فلمی نام “وسیم راجہ”رکھا۔اس فلم کے ہیرو ادکارہ چکوری کے پہلے شوہر اور سندھی فلموں کے مشہور ہیرو مشتاق چنگیزی تھے،



یہ فلم تین نومبر 1969 میں رلیز ہوئی۔قسمت کی دیوی وسیم پر مہربان تھی،جلدی وہ ایک سندھی فلم”گھونگھٹ لاھ کنوار”میں ہیرو آئے یہ اس کی دوسری فلم تھی،اس فلم کی ھیروئین شہزادی تھیں۔یہ شہزادی کی پہلی فلم تھی،فلم کے ھدایت کار غلام حیدر صدیقی تھے،فلم کے مکالمے مشہور رائیٹر امر جلیل نے لکھے تھے،یہ فلم 18 ستمبر 1970 کو ریلیز ہوئی۔یہ پہلی جزوی رنگین سندھی فلم تھی کیونکہ کے اس فلم کے کچھ گانے رنگیں تھے،فلم کی ہیروئیں ایک پنجابی کڑی سعیدہ تھی،اس فلم کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اس کے چار گانے سندھی میں میڈم نورجہاں (جس میں ایک دو گانہ گائیک یوسف کے ساتھ تھا)،اور ایک نغمہ مہدی حسن نے گایا تھا،اس فلم میں اردو فلموں کے ادکار حنیف نے بھی کام کیا تھا۔فلم سپر ھٹ ہوئی  تو وسیم نے پیچھے مڑکر نہیں دیکھا،وہ مسلسل 16 سندھی فلموں میں ہیروکے روپ میں آئے تمام فلمیں کامیاب رہیں ۔وہ سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے۔ وسیم نے مندرجہ ذیل  سندھی فلموں میں  کام کیا،تمام فلموں میں وہ ہیرو رھے۔گھونگھٹ لاھ کنوار،پنو عاقل،بادل،سورٹھ،پیار کیو سینگار،بادل ء برسات،،سندھڑی تان صدقی،دھرتی دل وارن جی،دھرتی ءآکاش،حاضر سائین،زندگی یا موت،جانو دھاڑیل،حیدر خان،حاکم خان،سندھ جا سپوت،۔ضیاالحق کے دور میں جب ایک سازش کے تحت کراچی فلم انڈسٹری کو تباھ کیا گیا تو بہت سے فنکاروں ہنر مندوں نے لاھور کا رخ کیا تو اردو فلموں کے مشہور ھدایت کار شباب کیرانوی نے وسیم کو لاھور بلایا اور زیبا اور محمد علی کے مشہور فلم”انصاف اور قانون “ایک مضبوط رول دیا،



اس کے علاوہ،مستی خان،پیسہ بولتا ہےاور دوسرے اردو فلموں اور ایک پنجابی فلم سمیت 30 فلموں میں کام کیا۔جب کراچی کی فلم انڈسٹری زوال پذیر ہوئی ،لاھور وسیم کو نہ بھایا تو اس نے ریڈیو اور ٹی وی کا رخ کیا،اور بہت ہی کامیاب ڈرامے کیے،وسیم نے پیچھے سوگواران میں ایک بیوہ سمیت چار بیٹیاں چھوڑی ہیں،آج(19 جون 2018) کو جب ظھیرکے نماز کے بعد اس کے جنازے میں شرکت کے لیئے بارن ولیج لسبیلہ رونہ ہوا،سمجھا بہت سارے فلم،ریڈیو،ٹی وی ،اسٹیج اور تھیٹر کے فنکار،قلمکار،چینلز کے کیمرا ،کلچر ڈیپارٹمینٹ کے لوگ ھونگے،لیکن جب میں وھاں پہنچنا تو میں نے روڈ کے فٹباتھ پر ٹینٹ کے نیچے اس کے عزیز اقارب کے علاوہ سندھ فنکار ویلفیئر ٹرسٹ کا چیئرمین حمید بھٹو،ادکار سہراب سومرو،فلم فائٹر ابو راہی،دانش بلوچ،سیاسی سماجی شخصیت الھی بخش بکک،نذیر کاکا،رضوان صابر،غلام قادر بلوچ شامل تھے دیکھا،وسیم راجہ  کی تدفین آھوں اور سسکیوں میں میوہ شاہ قبرستان میں ہوئی۔وھاں پر سابق ٹی وی پروڈیوسر الطاف سومرو،نعیم بلوچ ،رزاق میمن ،اظہر جوکھیو اور ادکار اسد قریشی،نے تدفین میں شرکت کی،بس یہی چند لوگ تھے۔ویسے اس دن گرمی بھی بہت تھی ایک غریب فنکار کے ،وہ بھی جنازے نماز میں،کون ای سی والے کمرے چھوڑتا ہے،یہ تھا ایک عظیم فنکار کا آخری سفر۔ایک دور کا اختتام،اس دور کو چند دوستوں نے آنسوؤں سے الوداع کہا۔(تحریر:گل حسن کلمتی،کراچی)

Comments

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...