Skip to main content

ایک تصویر ایک کہانی:26

یہ تصویر جس کے ساتھ آپ کا یہ جپسی کھڑا ھے اپنے دور کے منگھو پیر کی مشھور برفت چوکنڈی ھے،جس پر انگریز تاریخ دانوں کے علاوہ ڈاکٹر کلیم لاشاری،شیخ خورشید حسن،علی احمد بروھی،بدر ابڑو،اس ناچیز نے بھی لکھا ھے، آج 30 جنوری 2018 کو پانچ سال بعد میں تیسری بار میں نے اس کا دورہ کیا،تاریخی مقامات کی بربادی دل خون آنسو رویا،اس پرانی قبرستان پر کچھ سالوں میں،چائنا کٹنگ کے ذریعے آفری گوٹھ بنایا گیا،پھر اس تاریخی قبرستان کے اندر نئے مردے دفنائے گئے،تاریخی قبروں کو مسمار کیا گیا ان کے قیمتی پتھر اٹھا کر لے گئے،کچھ پتھر میں نے گٹر کے ڈکن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دیکھے،اس تاریخی قبرستان میں ۲۵ سے زائد چوکنڈی طرز تعمیر کے منعقش قبریں تھی،،پرانی تصویر میں آپ دیکھ سکتے ھیں کے چوکنڈی کے امد کچھ قبریں ھیں ،نئے تصویر میں قبریں قیمتی پتھروں کے ساتھ غائب ھیں اور ساتھ میں کچھ اونچی قبریں ھیں یہ اب موجود نہیں ھے یہ بربادی گذشتہ پانچ سالوں میں ھوئی ھے،چوکنڈی ایک پلر پر اب بھی فارسی میں لکھا ھے۔"الھی خیر /مبلغ پنچ ھزار پنچ صد خرچ شدہ۔بر چوگنڈرا ملک صپدر ولد ملک ھارون برفت ملک دودھا ولد ھارون"۔ جو قبریں مسمار کی گئی گئیں ان میں سے ایک پر کلمہ شریف کے بعد لکھا تھا،"ایں کبر مرحوم بولہ خان۔۔۔۔برایں۔۔۔۔۔۔پنجاھ ر ۔۔۔۔۔۔۔خرچ شد سنہ ۱۱۷۹"،جو لگتا ھے ھجری سن ھے۔



پرانی اور نئے تصویر دیکھ کر ایک درد سی دل میں اتر جاتی ھے،کہ یہ بربادی ھمارے نصیب میں کسی نے لکھی ھے،اگر حکمران اور ھمارے ووٹوں سے منتخب نمائندے سچے ھوتے تو یہ ھمارا نصیب نہ ھوتا۔قبرستان کے ساتھ،معصوم شاھ کی درگاھ تھی جس کے ساتھ چار اس طرع قبریں تھی،جو جاویداں سیمیٹ فیکٹری کے مالکان نے درگاھ سمیت مسمار کردیں اب صرف کچھ پتھر پڑیں ھیں،قبرستان کا یہ حصہ جاویدان سیمیٹ فیکٹری انتظامیہ نے نئے ناظم آباد نام پر ھونے والے ھاؤسنگ اسکیم میں شامل کرلی ھے،لالچ،چائنا کٹنگ اور قبضہ خور لینڈ مافیا نے ایک پوری تاریخ مسمار کردی،منگھو پیر اکثریت مقامی لوگوں کی ھے یہ خاموشی سمجھ سے بالاتر ھے،لگتا سب حصہ دار ھیں،پورا منگھو پیر تاریخی علاقہ ھے،سب ھر طرف قبضے کے چکر پوری تاریخ کو ملیا میٹ کر رھے ھیں،ایک پوری سیریز لکھنے کا اردہ رکھتا ہوں،تاکہ پڑھنے والےآگاہ ھوں کہ کس طرع تاریخی مقامات پر قبضہ کیا جا رھا ھے اور حکومت خاموش تماشائی بنی ھوئی ھے۔اس تصویر کے اس جگہ کی پرانی تصویر بھی شیئر کر رھا ھوں۔

تحریر: گل حسن کلمتی

Comments

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...