Skip to main content

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔


1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور دورچھ بڑے بڑے وارڈ بھی بنائے گئے،مرکزی عمارت جنگشاھی کے پتھر سے بنائی گئی ۔یہ آج بھی صحیح حالت میں ھے کچھ عرصہ پہلے سٹی حکومت کے دور میں اس کے مرکزی دروازے کے سامنے قبضہ کر کے گھر بنائے گئے پورا راستہ بند کر کے اس پر بھی قبضہ کیا گیا،یہ عمارت اور باقی تمام عمارتیں اس طرع ڈیزائن کی گئی ہیں کہ آگے میں دروازے کے علاوہ پچھواڑے بھی دروازے رکھے گئے ہیں،یہ برطرف سے ھوا دار ہیں۔مرکزی عمارت کے ساتھ "موچی خانہ"بھی ھے،آپ سوچ رھے ھونگے،شاید میں نے باورچی خانے کے بجائے غلطی سے "موچی خانہ" لکھا ھے،موچی خانہ اس لئے ھے،کیونکہ جذامی مریضوں کے مخصوص جوتے ھوتے ھیں،ان کی مرمت اور پالش کے لئے موچی خانہ بنایا گیا تھا،ایک بات اور جذامی مریضوں کے مخصوص جوتوں کے ایک "شو ورکشاپ"بھی تھا،جہاں سے مریضوں کو مفت جوتے فراہم کئے جاتے تھے ،یہ سب ھیرانند ٹرسٹ کے طرف سے تھا۔اب اس ورکشاپ کو رھائش کے لئے استعمال کیا جا رھا ھے،اس اسپتال کے بہت سے حصوں پر ملازمیں نے قبضہ کیا ھے اور کرائے پر چڑھا دئے ہیں۔بہت سےحصوں پر قبضے کرائے گئے ہیں،اس اسپتال کا ایک بلاک جھانگیر کوٹھاری کے جانب سے بنا کر دیا گیا ھے،جو اب بند ھے،اسپتال کے ساتھ ایک بلڈنگ مختلف سماج سدارک کے جانب بنایا گیا،بورڈ پر سب کے نام اور دئیے گئے ہیں ،اس خوبصورت عمارت پر اس دور میں 13 ھزار خرچہ آیا تھا


میں اس کہںانی کو مختصر کرنے کی کوشش کرونگا،کیونکہ کہ تفصیلات طویل ھیں ،جب یہ سلسلہ کتابی صورت میں چھپے گا تو تمام تفصیلات دونگا۔ ھیرانند جذامی اسپتال کی الگ دنیا تھی،صوفی سندھ کی جھلک یہاں دیکھنے میں آتی ھے۔ایک بات بتاتا چلوں راما پیر کا قدیمی مندر بھی یہاں پر ھے،جب یہ زمین لی گئی تو مندر بھی اس میں آگئی تھی،جب یہ اسپتال بنایا گیا تو یہاں پر مندر مسجد اور ایک گرجا گھر بنایا گیا تھا ،جو اب بھی موجود ہیں،پرانی پتھر والی مسجد کی جگہ اب نیا جامع مسجد بنایا گیا ھے۔راما پیر کے قدیمی مندر کے ساتھ دو کمرے ہیں جو مندر کا حصہ ہیں اب وھاں ایک ھندو فیملی رھتی ھے،ساتھ میں ایک پتھر کی پرانی عمارت ھے،جس پر 1906 لکھا ھوا ھے،ساتھ ایک نیم کا پرانا درخت ھے،اسپتال ایک ملازم نے اس ایک طرف قبضہ کرکے نرسری بنائی ھے لگتا ھے یہ شخص کچھ سالوں کے بعد پوری عمارت پر قبضہ کر لیگا،کیونکہ اس کو سرکاری آشیرواد حاصل ھے۔اس کےسوا ایک اور مندرمھادیو مندر بھی ہے جس کی اب بابو لال دیکھ بحال کر رھا ھے ۔ بابری مسجد کے واقعے کے بعد پرانے پتھر کے مندر کو مسمار کرکے پتھر ھمارے مسلمان بھائی اٹھا کر لئیے گئے اپنے گھروں میں استعمال کئے،انھی گھروں میں وہ نماز بھی پڑھتے ھونگے۔گرجا گھر موجود ہے,یہاں پر پتھر کا بنا ھوا ایک بھنڈارا بھی ھے جو اب خستہ حالت میں ھے،جس میں مریضوں کے مفت کھانا دیا جاتا تھا،اس بھنڈارا کے سامنے دو بڑھے پتھر کے چھپرے/چوکنڈی بنے ھوئے تھے،مریض ان کے نیچے بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے ۔ان خوبصورت چھپروں کو مسمار کرکے پتھر اٹھا کر لئے گئے۔یہ سب کچھ سرکار سرپرستی میں ھوتا رھا ھے۔کیونکہ اس ٹرسٹ کے اور اس دھرتی وارثوں کو مقدس بٹوارہ کے نام پر اپنا دیس چھوڑنا پڑا۔1960 میں اس آباد دنیا کو کراچی میونسپلٹی کے حوالے کیا گیا اس کے بعد اس کی بربادی شروع ھوئی جو آج تک جاری ھے۔آسو مل حلوائی کا درمشالا بھی اس اسپتال ساتھ تھا،جس کا احوال کسی اور دفعہ۔میں نے دورے کے دوران ایک چترالی مریض سے پوچھا ،"جن لوگوں نے یہ بنایا وہ ھندو تھے،ھر مذھب کی لوگوں کا بنا تفریق مفت علاج،مفت کھانا مفت رھائش،دی جاتی تھی اور آج ایک سؤ 21 سال ھوئے ھیں آج تک یہ صدقہ جاری ھے،کیا اس کے بنانے والے دوزخ میں جاینگے "اس مریض نے بنا سوچے جواب دیا"نہیں صاحب یہ کسے دوزخ میں جائینگے"۔کراچی میونسپلٹی کے قبضے کے بعد اس نام تبدیل کر کے "کے۔ایم۔سی جذامی اسپتال منگھو پیر "رکھا گیا۔یہ تاریخ کے ساتھ بلات کار ہے۔ضرورت اس بات کی ھے،اس پر تمام قبضے ختم کئے جائیں،اس کو قومی ورثہ قرار دیکر محفوظ کیا جائے ،اس کا پرانا نام دوبارہ بحال کیا جائے ۔یہ سب ھم سب کی تاریخ ھے،آئیں اس کو تاریک ھونے بچائیں۔


Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...