Skip to main content

ایک تصویر ایک کہانی،31


 ایک تصویر ایک کہانی،31
:سبھی چراغ مجھے پیشوا سمجھتے ہیں
مجھے ہی جلنا پڑا ، ہر چراغ سے پہلے


آج موڈ پرانی یادیں تازہ کرنے کا تھا،آج جب ضلع کونسل کراچی سے گھر کے لیئے رکشہ میں ملیر کینٹ روڈ تک سفر کیا ،یہ سفر 1997 کے بعد اس طرع کیا تھا۔1982 میں جب کراچی یونیورسٹی سے ایم۰ای ماس کام(اس وقت اس کو Journalism کہتے تھے)۔پاس کیا،مختلف محکموں میں خاک چھاننے کے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ جوائن کی،۱۹۸۳ میں ضلع کونس کراچی میں پی،آر۰او بھرتی ھوا ،گڈاپ ٹاؤن کا ٹی۰ ایم۰او اور ایڈمنسٹریٹر رھا،جب ضلع کونسل دوبارہ بحال ھو تو ریٹائر مینٹ تک ڈائریکٹر انفارمیشن رھا اور 19 گریڈ میں ریٹائر ھوا۔رکشہ گلشن کے پل پر سر سید یونیورسٹی کے سامنے خراب بھی ھوا،کچھ دیر رکنے کے بعد روانہ ھوا،ملیر کینٹ گیٹ تک رکشہ نے 250 روپئے لئے،وھاں سے میٹرو میں چستی ھوٹل سپر ھائے وے پہنچا 15 روپئے کرایہ ادا کیا،شو مئی قسمت میٹرو بھی دکہ اسٹارٹ ملا

پھر غلامی جوکھیو کے رکشہ میں کونکر ولیج، رادھو گوٹھ موڑ تک 40 روپئے کرایہ ادا کر کے پہنچا، وھاں سے چار کلو میٹر پیدل چل کر گھر پہنچھا،جب رکشہ کونکر گبول اسٹاپ پہنچا،میں پیچھے بیٹھا تھا تو بابو مہشوری موٹر سائیکل پر پیچھے آرھا تھا،پہلے تو اسے یقین نہیں آیا کہ یہ میں ہوسکتا ھوں،جب میں نے اس کو سلام کیا تو اس نے پہچانا ،بلند آواز میں سندھی میں کہا"صاحب چڈی اچان"لیکن میں انکار کیا کیونکہ آج موڈ کچھ اور تھا ،جبار بلوچ سے مجھے یہ غریب مہشوری دل کا امیر لگا۔جب ڈگری کالج پر رکشہ سے اتر کر پیدل جا رھا تھا سنسان راستے پر دو موٹر سائیکل سواروں نے آفر کی تو میں نے کہا" صاحب آج واک کرے گا آپ سب کا شکریہ"،کیونکہ کہ آج ضلع کونسل کراچی کے آفیس کو خیرآباد کہا تھا،ریٹائر مینٹ تو جولائی 2017 میں ھوئی تھی،،لیکن آفیس کے ادورھے پروجیکٹ پر کام کرتا رھا،زندگی کے 34 سال میں اس ادارے کو دیئے،،بہت پُر سکون نوکری گذری لیکن گذشتہ ایک سال میں ،بہت تلخ تجربے ہوئے ان کا ذکر کسی اور دفعہ،اس سفر کے اسباب آفیس کے گاڑی کا اچانک واپس کرنے کا آرڈر ھے۔مہربانی ڈائریکٹر انفارمیشن عدنان محمد خان کی جس نے اپنی گاڑی میں گھر چھوڑنے کی آفر کی ،لیکن آج موڈ پرانی یادیں تازہ کرنے کا تھا۔ایک دوست جبار بلوچ کو گھر چھوڑنے کے لئےکہا تو اس نے موڈ خراب کردیا،پھر کسی کو نہیں کہا،پرانی یادیں پھر سے تازہ ھو گئیں ،آج مٹی دوھول بھی اچھی لگ رہی تھی،نوکری میں 14 سال اس طرع بسوں میں دھکے کھاتے گذر گئے تھے،20 سال سرکاری گاڑی رھی۔آج سے بیس سال پہلے کبھی کبھی نظیر کاکا حسن اسکوائر بس اسٹاپ تک چھوڑنے جاتا تھا اور آج بھی نظیر کاکا ساتھ تھا،گڈاپ کی بس نکل چکی تھی اس لئیے سفر اس طرع مکمل ھوا۔اس سفر
میں ٹوٹل دو گھنٹے 45 منٹ لگے۔(18-02-07
)


Comments

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...