Skip to main content

ہاں ہم مجرم ہیں

کل(18-02-09)جب کراچی پریس کلب کے سامنے انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی کا بحریا ٹاؤن کے خلاف مظاھرہ ھو رھا تھا تو اسی دن ھمارے ایک دوست جو کالمیسٹ ھیں،محمد خان دائود اس نے ایک ایسی پوسٹ رکھی،جو پڑھنے کے بعد سوچتا رھا کہ ایک طرف ھر سو بحریا ٹاؤن جیسے بھڑیئے کے خلاف خاموشی ھے،ھمارے منتخب نمائندے اپنے عہدے اور سٹیں بچانے کے لئیے خاموش ہیں،ایسی وقت میں بحریا کا راکاس ھماری زمین،ھمارے قبرستان ،ھمارے گوٹھ،چراگاھیں ،تاریخی آثار،ندی نالے،پانی کی گذرگاھوں پر قبضہ کر رھا ھے،ھمارے قائدین چھوٹی چھوٹی عہدے ملنے پر مبارکباد دے رھے ھیں،ان کو اب ھوش آنا چاھئے کہ یہ عہدے اور پاور ان غریب لوگوں کے وجہ سے ھے،جو اب دربدر ھو رھے ھیں،ان لیڈروں سے ھم اب غلہ کرنا چھوڑ دیا ھے،لیکن اپنے آپ کو ملیر کا ھمدرد کہنے والے،ترقی پسند سوچ رکھنے والے ،اپنے کالموں میں ملیر کا رونا رونے والے،جن سے ھم جیسے ان پڑھ بہت کچھ سیکھنا چاھتے ھیں،ان کے بتائی ھوئے راہ پر چلنا چاھتے ،وہ اگر یہ لکھے کہ "آج کراچی پریس کلب پر ملیر کے مجرم جمع ھو رھے ہیں اور بحریا ٹاون تو بن گیا اب احتجاج کیا فائدہ"تو محمد خان دائود (جس کو پیار سے مائٹ بولتا ھوں)یہ باتیں آپ جیسے ترقی پسند لکھاری کو شوبا نہیں دیتی،آپ کہے رھے ہیں کہ"بہت دیر کے بعد ان کو ملیر کا خیال آیا"دوست افسوس ھوتا ھے،شاید آپ ھمارے جدوجہد کے تاریخ پتا نہیں یا تو آپ یہ باتیں کر مایوس قوم کو مزید مایوسی کے غار کے طرف دھکیلنا چاہتے ہیں۔آپ کا یہ عمل دانستہ یا نا دانستہ طور پر بحریا کو فائدہ دی رھی ھے۔آپ ھم کو (میں انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی کی بات کرتا ھوں) اور ملیر کے سیاستدانوں کو ایک ھی لاٹھی سے حانکھ رھے ھیں ۔اس لئے کہ شاید آپ کو ھمارے جدوجہد علم نہیں یا علم ھوتے ہوئے جان بوجھ کر ایسا کر رھے ھیں، اگر آپ کو ھمارے چہرے اور ٹوپیاں پسند نہیں ھم کیا کر سکتے ھیں ۔آپ اس ملیر کے باسی ہیں ،اس کو بچانے کے لئے آپ نے کیا کیا ھے،؟


آپ ھمیں چھوڑیں آپ باھر نکلیں کچھ کریں،کیونکہ ھم دو بندے تھے،محنت کی اور یوں یہ قافلہ بنتا گیا،ھم یہ دعوہ نہیں کرتے کہ ھم نے بڑے تیر مارے ہیں لیکن ناموافق حالات،اور خالی جیب سے ھم نے اس اشو کو لوگوں،میڈیا اور سول سوسائٹی تک پہنچایا،لوگوں میں ایک خوف تھا جو ھم نے دور کیا ،اپنی نوکری،صحت کی پرواہ نہ کرتے ھوئے تمام ساتھیوں نے گرمی ،دھوپ اور دھول میں متاثرین کے ساتھ کھڑے رھے،یہ ہی ھمارا اگر جرم ہے،جس کے لئیے ھم مجرم ٹھہرے تو یہ جرم ھم کرتے رھیں گے،ای،سی کمروں میں بیٹھک کر تنقید کرنا آسان ھے،گرمی اور دھول میں نکلنے سے شاید تنقید کاروں کا رنگ کالا ھوگا،محمد خان سائیں جس طرع آپ کو اپنا صحت،اپنے بچے،اپنی نوکری اپنے پئسے عزیز ھے،ھم بھی انسان ہیں ،ھمارے اس ٹیم میں اکثر چھوٹے نوکریوں والے لوگ ہیں،جن کی جبیں مہنے کے پانچ تاریخ خالی ھو جاتی ہیں،لیکن وہ جدوجہد میں مصروف رھے،کسی بھی پروگرام کے لیئےکسی کے سامنے ھاتھ نہیں فہلائے،جو کچھ بھی کیا اپنے خالی جیبوں کے طرف دیکھ کر کیا۔آج تک ھم نے انہیں حالات میں مختلف علاقوں میں بارہ احتجاجی پروگرام کیئے،شہر کے لوگوکو اپنے ساتھ ملانے کے لیئے اور مسقبل کے خطرات سے آگئی کے لئے ھم نے کراچی یونیورسٹی ،حبیب یونیورسٹی ،پائلر،ارتقا،سندھ پروگریسیو کامیٹی ،سندھ سیو کامیٹی،حیدرآباد سول سوسائٹی کے تعاون سے ملکر دس سمینار کرائے ہیں،ریلیاں نکالی ہیں،مختلف ٹی وی چینلز جن میں مہران،ڈان ،سچ،عوامی آواز،وش شامل ہیں بحریا کے قبضہ گریت کے خلاف ٹاک شوز میں اپنا موقف پیش کیا ،ھمارے دوستوں نے ڈان اخبار کے ڈیم،عوامی آواز کے ٹیم ،سچ ٹی وی کے ٹیم،آواز ٹی وی کے ٹیم،بزنس پلس ٹی وی کے ساتھ گرمیوں میں چھپتے چھپتے متاثرہ گوٹھوں اور علاقوں دورے کئے،یہ سب کچھ ھم نے اپنے خالی جیبوں سے کیا۔آپ سمیت کسی سے ایک روپیہ نہیں لیا،ھم نےایک ای،پی،سی بھی کی تھی،اپنے خالی جیبوں سے ھم کراچی پریس کلب میں دو پریس کانفرنس کر چکے ہیں ،پھر آپ جیسے تنقید نگار یہ لکھتے نہیں تکھتے کہ ھم نے کچھ نہیں کیا ھے،ھم مجرم ہیں ،ھاں یوسف مستی خان،عثمان بلوچ،ڈاکٹر رخمان گل پالاری،خالق جونیجو،سید خدا ڈنو شاھ،جمال ناصر،ڈاکٹر ریاض احمد،کامریڈ نغمہ،حفیظ آدرش،بلال کلدانی،آمر گل،نواز جوکھیو،نواز تبدیلی پسند،سامی میمن،حمزو پنھور،الھی بخش بکک،شعیب بکک،فرید بکک،حیدر شاھ،یونس خاصخیلی،اسد بٹ،کامریڈ کلیم درانی،غلام رسول بلوچ،اللہ دین پالاری ،علی محمد مستوئی،ایڈوکیٹ ابوبکر میمن،انور میمن ،طالب کچھی،سعید بلوچ،کامریڈ واحد بلوچ ،شجاع قریشی ھم سب مجرم ہیں کیونکہ ھم نے خالی ھاتھ اور خالی جیب صرف اپنے حوصلے سے بحریا جیسی بھڑیا سے ٹکر لی ھے،ھاں ھم مجرم ہیں متاثرہ لوگوں کا ساتھ نہ دینے پر بھی ان کی بات کرتیں ہیں،ھاں مجرم ہیں اس لیئے کہ ھم جھکے نہیں ھم بکے نہیں۔محمد خان دائود صاحب فیض محمد گبول جو اب ھم سب کا آئیڈیل ھے،فیض گبول کو گمنام یوں سے نکالنے والے بھی ھمارے ساتھی تھے،یہ ھم تھے جو اس بوڑھے شیر کو حوصلہ دیا،ھم نے تو نچ کر بھی یار منانے کی کوشش کی،ھمارے لوگ جو مظاہروں میں کم آتے ہیں،اس لئیے ھم نے کونکر میں تحریک نسواں کے شیما کرمانی سے ملکر تھیٹر کیا، گانے کا بندوبست کیا،فیض گبول کو ایک جلوس کے شکل میں ھم پنڈال میں لائے،ان سب کے لیئے آپ کو بتا ھونا چاھئیےکہ پیسہ درکار ھوتا ھے،ھم نے کسی سے چندہ نہیں کیا اور ھر پروگرام کے طرع اپنے خالی جیبوں کو ٹھٹولا،آپکی ملیر کے صحافیوں پر تنقید بجا،ھم بھی لینڈ گریبر صحافیوں کے خلاف ہیں،جو راؤ انوار کے بدلی پر شرمندہ ھوتے ہیں،جب راؤ انوار کو ھٹایا جاتا تو ان کچھ صحافیوں کے گھروں میں ماتم ھوتا ھے،ھم بھی ان خلاف ہیں،لیکن سب کو ایک لاٹھی سے ھانکنہ اچھا نہیں ،اس جدوجہد میں سامی میمن حمزہ پنھور اور مرحوم سلطان شاھ جیسے ملیر کا درد رکھنے والے ملیر کے صحافی ھمارے ٹیم کا حصہ ہیں۔جہاں تک میرے کراچی پر لکھے گئے ضخیم کتاب کا تعلق ھے،جسے آپ کے بقول گدھے پر لادھ کر لانے کی بات کی ،میرے ان دس سالا محنتوں پر ایک طنز ھے ،جو میں نے اپنی بینائی،اپنے جوانی کےدن قربان کر کے کراچی کے گلیوں کی خاک چھان کر مٹی اور دھول پان کر گرمی اور سردی کے پرواہ کیئے بنا میں نے کراچی کی گمشدہ تاریخ محفوظ کی اور آپ کا یہ ایک جملہ اس تاریخ کے ساتھ مذاق ھے،میری تو ابھی تکھن نہیں اتری ھے ،،بجائے حوصلہ افزائی کےآپ تیروں کے نشتر برسا رہیں ہیں ،تنقید آپ کا حق ھے،میں کوئی مقدس گائے نہیں ھوں کہ مجھ پر یا میرے کتاب پر کوئی تنقید نہ کرے،لیکن تنقید اور طنز میں فرق ھونا چاہیئے ،میں ھر ایک کے تعمیری تنقید کو خوش آمید کہتا ھوں ۔اپنے خول سے باھر نکلو،دنیا جدوجہد کا نام ھے،آگر آپ ھماری چہرے اور ٹوپیاں اچھی نہیں لگی ،ھمارے خالی جیبوں کی جدوجہد آپ کو اچھی نہیں لگتی تو جدوجہد کا اپنا راستہ چنو، خاموش مت رھو،اگر کوئی بات ناگوار گذری ھو تو معافی کا طلبگار ہوں



چلی کے انقلابی شاعر پابلو نرودا کی ایک نظم


( خاموش موت )
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔
اگر تم سفر نہیں کرتے۔۔۔۔
اگر تم پڑھتے نہیں ہو۔۔۔۔
اگر تم زندگی سے لطف نہیں لیتے۔۔۔۔
اگر تم اپنے آپ سے محبت نہیں کرتے۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔۔
اگر تم نے اپنی خود اعتمادی مار دی ہو۔۔۔۔۔
اگر تم دوسرے کو اپنے دکھ میں شریک نہیں کرتے۔۔۔
تم خاموش موت مررہے ہو۔۔۔۔۔
اگر تم اپنی عادات کے غلام ہو۔۔۔۔۔
اگر تم روز ایک ہی راہ پر چلتے ہو۔۔۔۔۔
اگر تم اپنا دستور نہیں بدلتے۔۔۔۔۔
اگر تم الگ رنگ نہی پہنتے۔۔۔۔۔
یا تم آجنبیوں سے مخاطب نہیں ہوتے۔۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔۔
جب جذبات سے بھاگتے ہو۔۔۔۔۔
اور احساس کی ہنگامہ خیزی سے۔۔۔۔۔
وہ جن سے آنکھیں چمک جائیں۔۔۔۔۔
اور دل کی دھڑکن تیز۔۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رہے ہو۔۔۔۔۔
جب زندگی کو بدلنا نہ چاہو۔۔۔۔۔
جب روزگار و محبت میں تسکین نہ ہو۔۔۔۔۔
جب تم خطرہ نہیں اُٹھاتے محفوظ غیر یقینی کا۔۔۔۔۔
جب تم اپنے خوابوں کا تعاقب نہیں کرتے۔۔۔۔۔
جب زندگی میں بس ایک بار عقل کے مشورے سے پلٹے نہ ہو۔۔۔۔۔
تم خاموش موت مر رھے ھو۔۔۔



Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...