Skip to main content

ایک تصویر،ایک کہانی،18:

اس کہانی میں دو تصویریں ہیں،لیکن کہانی ایک ہے،یہ 1993 کی بات ہے،بی فکری کا زمانہ تھا،نہ گھر کی فکر اور نہ ہی نوکری کی پریشانی ،نوکری میں ہوتے ہوے اس کی کوئی پرواہ نہیں ،تھوڑی تنخواہ،پریشانیاں کم،گھر کی فکر اس لئے نہیں کہ ابو حیات تھے،ابو کی ایک بات مجھےاچھی لگتی تھی کہ،"نکلو اور دنیا دیکھو"،اس نے گھومنے سے کبھی بھی منع نہیں کیا،اس لئے گھر،رشتے کبھی پاؤں زنجیر نہیں بنے،جب میں نے پانچوی پاس کی تو رولاکیاں میرے زندگی کا حصہ بنی ،اکثر سفر اکیلے کئے،لیکن جن دوستوں کے ساتھ بہت سفر کئے ان میں مرتضی بلوچ اور منظور بلوچ شامل ہیں،ایک رات وہ میرے پاس آئے،کہا" کل صبح اذان کے وقت تیار رہنا ،بائے روڈ لاھور،اسلام آباد،مری اور کشمیر جانا ہے۔جتنے بھی کپڑے ہیں استری کر کے بیگ میں رکھنا"،میں کہا،" اتنی جلدی ،آفیس سے چھٹی ،پیسے "انہوں کہا، "کوئی بہانہ نہیں کل صبح اذان کے وقت ",میں نے پوچھا "اور کون کون ہیں؟"مرتضی نے کہا تین ھم،چوتھا رادھو گوٹھ والے اکبر جوکھیو"میں ان کے عادت سے واقف تھا،تیاری کے سواہ کوئی چارہ نہیں تھا،اس لیے پیکنگ کی،کچھ پیسے تھے باقی قادر بینکر سے ادھار لیے ،چھٹی کی درخواست لکھ کر کزن کے حوالے کی،مرتضی اور منظور صبح سویرے ڈبل کیبن ھائیس میں پہنچے،رادھو گوٹھ سے اکبر کو لیا اور نکل گئے،رات بھاولپور میں گذاری




دوسرے دن لاھور پہنچے،امریکن سسٹم ،پیسے ایک دوست کے پاس رکھے تاکہ خرچہ ایک جگہ سے ہو،جس کو نانی اماں کا نام دیا گیا ،لاھور سے اسلام آباد پہنچے ،پہلی تصویر جس میں،مرتضی بلوچ،منظور بلوچ اور یہ ناچیز نظر آرہیں ہیں اسلام آباد کی ھے،پس منظر امام بری کی درگاھ نظر آرہی ہے،دوسری تصویر فیصل مسجد کی ہے،اسلام آباد سے مری آگئے ،کچھ دن یہاں گذار کر کوھالا پہنچے،کشمیر نہیں جا سکے ،کیونکہ ایک دن پہلے جب ھم مری میں تھے تو کشمیر میں طوفانی بارشوں کی اطلاع ملی تھی،نیلم ندی پر کوھالا اور کشمیر کو ملانے والا پل بہے گیا تھا،اس لیے کوھالا سے واپس ہوئے ،کچھ دنوں کے بعد رمضان شروع ہونے والا تھا،۷ رمضان کو شاھ نورانی کا میلا بھی تھا،اس لئے اسلام آباد واپس پہنچ کر پروگرام اس طرع بنایا کہ ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو،ڈیرہ بگٹی سے کوئٹہ،کوئٹہ سے خضدار پھر وھاں سے شاھ نورانی جائینگے ،لیکن سندھی میں ایک کہاوت ہے "بندے جی من م ھکڑی،صاحب جی من م بھی"ھمارا دوست علی اکبر جوکھیو اپنے گھر سے لیمارکیٹ تک کے سواہ کہیں باھر نہیں گئے تھے،اس نے زندگی میں اتنا لمبا سفر نہیں کیا تھا، اتنے دن گھر سے باھر کا اس نے تصور نہیں کیا تھا،اس لئے ھوم سیک کی بیماری میں مبتلا ہوا،گھر اور گھر والی کی یاد میں وہ بخار میں مبتلا ہوا،ھم نے اسے جہاز میں بجھنے کی کوشش کی وہ تیار نہ ہوا،اس لئے ڈیرہ غازی خان ،فورٹ منرو ،کوئٹہ اور شاھ نورانی کا پروگرام ملتوی کر ھم کلر کار کے راستے واپس ہوئے


جیسے ھم نے نوری آباد کراس کیا ھمارے دوست جوکھیو صاحب بھی تندرست ہوگئے۔جب ھم گھر پہنچے تو ایک بری خبر ھماری منتظر تھی،اب پتا چلا کہ کشمیر اور شاھ نورانی کیوں نہیں جا سکے،ھمارا دوست کیوں بیمار ہوا،جس کے وجہ سے ھم جلدی واپس آگئے،کیوںکہ اللہ کے اپنے فیصلے ہیں،گھر پہنچ کر یہ المناک خبر ملی کہ ایک دن پہلے،منظور کا جواں سال چاچا غلام سرور ھم سے ھمیشہ کے لئے بچھڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔اس سفر کا قصہ میرے پہلی کتاب "اک رٹل شھر جی کہانی "میں تفصیل کے ساتھ ہے۔یہ سفر نامہ دوبارہ میری کتاب "عشق جون گلیوں"کے سیکنڈ ایڈیشن شامل ھے،جو جولائی میں شائع ہورہا ہے۔اس خوبصورت سفر کے تمام ساتھی آج بھی ساتھ ہیں ،مرتضی بلوچ اس وقت پی ایس 127 ملیر سے صوبائی اسمبلی کے میمبر اور کچھی آبادی کے وزیر اور پی پی پی ملیر ضلع کے صدر ہیں،منظور بلوچ گڈاپ یوسی سے ضلع کونسل کراچی کے میمبر ہیں،اکبر جوکھیو اپنی زمینداری اور ٹھکیداری کرتے ہیں،یہ جپسی آج بھی اسی آفیس میں ہیں جہاں سے یہ سفر کیا تھا،اس خوبصورت سفر کی دلچسپ باتیں پڑھنے کے لئے کتاب "عشق جون گلیون" کا دوسرا ایڈیشن ضرور پڑھنا،

Comments

Popular posts from this blog

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...