اس کہانی میں دو تصویریں ہیں،لیکن کہانی ایک ہے،یہ 1993 کی بات ہے،بی فکری کا زمانہ تھا،نہ گھر کی فکر اور نہ ہی نوکری کی پریشانی ،نوکری میں ہوتے ہوے اس کی کوئی پرواہ نہیں ،تھوڑی تنخواہ،پریشانیاں کم،گھر کی فکر اس لئے نہیں کہ ابو حیات تھے،ابو کی ایک بات مجھےاچھی لگتی تھی کہ،"نکلو اور دنیا دیکھو"،اس نے گھومنے سے کبھی بھی منع نہیں کیا،اس لئے گھر،رشتے کبھی پاؤں زنجیر نہیں بنے،جب میں نے پانچوی پاس کی تو رولاکیاں میرے زندگی کا حصہ بنی ،اکثر سفر اکیلے کئے،لیکن جن دوستوں کے ساتھ بہت سفر کئے ان میں مرتضی بلوچ اور منظور بلوچ شامل ہیں،ایک رات وہ میرے پاس آئے،کہا" کل صبح اذان کے وقت تیار رہنا ،بائے روڈ لاھور،اسلام آباد،مری اور کشمیر جانا ہے۔جتنے بھی کپڑے ہیں استری کر کے بیگ میں رکھنا"،میں کہا،" اتنی جلدی ،آفیس سے چھٹی ،پیسے "انہوں کہا، "کوئی بہانہ نہیں کل صبح اذان کے وقت ",میں نے پوچھا "اور کون کون ہیں؟"مرتضی نے کہا تین ھم،چوتھا رادھو گوٹھ والے اکبر جوکھیو"میں ان کے عادت سے واقف تھا،تیاری کے سواہ کوئی چارہ نہیں تھا،اس لیے پیکنگ کی،کچھ پیسے تھے باقی قادر بینکر سے ادھار لیے ،چھٹی کی درخواست لکھ کر کزن کے حوالے کی،مرتضی اور منظور صبح سویرے ڈبل کیبن ھائیس میں پہنچے،رادھو گوٹھ سے اکبر کو لیا اور نکل گئے،رات بھاولپور میں گذاری
دوسرے دن لاھور پہنچے،امریکن سسٹم ،پیسے ایک دوست کے پاس رکھے تاکہ خرچہ ایک جگہ سے ہو،جس کو نانی اماں کا نام دیا گیا ،لاھور سے اسلام آباد پہنچے ،پہلی تصویر جس میں،مرتضی بلوچ،منظور بلوچ اور یہ ناچیز نظر آرہیں ہیں اسلام آباد کی ھے،پس منظر امام بری کی درگاھ نظر آرہی ہے،دوسری تصویر فیصل مسجد کی ہے،اسلام آباد سے مری آگئے ،کچھ دن یہاں گذار کر کوھالا پہنچے،کشمیر نہیں جا سکے ،کیونکہ ایک دن پہلے جب ھم مری میں تھے تو کشمیر میں طوفانی بارشوں کی اطلاع ملی تھی،نیلم ندی پر کوھالا اور کشمیر کو ملانے والا پل بہے گیا تھا،اس لیے کوھالا سے واپس ہوئے ،کچھ دنوں کے بعد رمضان شروع ہونے والا تھا،۷ رمضان کو شاھ نورانی کا میلا بھی تھا،اس لئے اسلام آباد واپس پہنچ کر پروگرام اس طرع بنایا کہ ڈیرہ غازی خان سے فورٹ منرو،ڈیرہ بگٹی سے کوئٹہ،کوئٹہ سے خضدار پھر وھاں سے شاھ نورانی جائینگے ،لیکن سندھی میں ایک کہاوت ہے "بندے جی من م ھکڑی،صاحب جی من م بھی"ھمارا دوست علی اکبر جوکھیو اپنے گھر سے لیمارکیٹ تک کے سواہ کہیں باھر نہیں گئے تھے،اس نے زندگی میں اتنا لمبا سفر نہیں کیا تھا، اتنے دن گھر سے باھر کا اس نے تصور نہیں کیا تھا،اس لئے ھوم سیک کی بیماری میں مبتلا ہوا،گھر اور گھر والی کی یاد میں وہ بخار میں مبتلا ہوا،ھم نے اسے جہاز میں بجھنے کی کوشش کی وہ تیار نہ ہوا،اس لئے ڈیرہ غازی خان ،فورٹ منرو ،کوئٹہ اور شاھ نورانی کا پروگرام ملتوی کر ھم کلر کار کے راستے واپس ہوئے
جیسے ھم نے نوری آباد کراس کیا ھمارے دوست جوکھیو صاحب بھی تندرست ہوگئے۔جب ھم گھر پہنچے تو ایک بری خبر ھماری منتظر تھی،اب پتا چلا کہ کشمیر اور شاھ نورانی کیوں نہیں جا سکے،ھمارا دوست کیوں بیمار ہوا،جس کے وجہ سے ھم جلدی واپس آگئے،کیوںکہ اللہ کے اپنے فیصلے ہیں،گھر پہنچ کر یہ المناک خبر ملی کہ ایک دن پہلے،منظور کا جواں سال چاچا غلام سرور ھم سے ھمیشہ کے لئے بچھڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے ہیں۔اس سفر کا قصہ میرے پہلی کتاب "اک رٹل شھر جی کہانی "میں تفصیل کے ساتھ ہے۔یہ سفر نامہ دوبارہ میری کتاب "عشق جون گلیوں"کے سیکنڈ ایڈیشن شامل ھے،جو جولائی میں شائع ہورہا ہے۔اس خوبصورت سفر کے تمام ساتھی آج بھی ساتھ ہیں ،مرتضی بلوچ اس وقت پی ایس 127 ملیر سے صوبائی اسمبلی کے میمبر اور کچھی آبادی کے وزیر اور پی پی پی ملیر ضلع کے صدر ہیں،منظور بلوچ گڈاپ یوسی سے ضلع کونسل کراچی کے میمبر ہیں،اکبر جوکھیو اپنی زمینداری اور ٹھکیداری کرتے ہیں،یہ جپسی آج بھی اسی آفیس میں ہیں جہاں سے یہ سفر کیا تھا،اس خوبصورت سفر کی دلچسپ باتیں پڑھنے کے لئے کتاب "عشق جون گلیون" کا دوسرا ایڈیشن ضرور پڑھنا،
Comments
Post a Comment