ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی فلموں کا یہ چ
ا س کہانی میں دو تصویریں ہیں،لیکن کہانی ایک ہے،یہ 1993 کی بات ہے،بی فکری کا زمانہ تھا،نہ گھر کی فکر اور نہ ہی نوکری کی پریشانی ،نوکری میں ہوتے ہوے اس کی کوئی پرواہ نہیں ،تھوڑی تنخواہ،پریشانیاں کم،گھر کی فکر اس لئے نہیں کہ ابو حیات تھے،ابو کی ایک بات مجھےاچھی لگتی تھی کہ،"نکلو اور دنیا دیکھو"،اس نے گھومنے سے کبھی بھی منع نہیں کیا،اس لئے گھر،رشتے کبھی پاؤں زنجیر نہیں بنے،جب میں نے پانچوی پاس کی تو رولاکیاں میرے زندگی کا حصہ بنی ،اکثر سفر اکیلے کئے،لیکن جن دوستوں کے ساتھ بہت سفر کئے ان میں مرتضی بلوچ اور منظور بلوچ شامل ہیں،ایک رات وہ میرے پاس آئے،کہا" کل صبح اذان کے وقت تیار رہنا ،بائے روڈ لاھور،اسلام آباد،مری اور کشمیر جانا ہے۔جتنے بھی کپڑے ہیں استری کر کے بیگ میں رکھنا"،میں کہا،" اتنی جلدی ،آفیس سے چھٹی ،پیسے "انہوں کہا، "کوئی بہانہ نہیں کل صبح اذان کے وقت ",میں نے پوچھا "اور کون کون ہیں؟"مرتضی نے کہا تین ھم،چوتھا رادھو گوٹھ والے اکبر جوکھیو"میں ان کے عادت سے واقف تھا،تیاری کے سواہ کوئی چارہ نہیں تھا،اس لیے پیکنگ کی،کچھ پیسے تھے