Skip to main content

Posts

گل حسن کلمتی

ایک تصویر ایک کہانی۔33

ایک فنکار کا آخری سفر:تصویر میں ،میں ایک70 سالا خوبصورت شخص کو ایوارڈ دے رہا ھو،2016میں منعقد ہونے والا یہ اپنے نوعیت ایک منفرد پروگرام تھا ،جس کراچی سے تعلق رکھنے والے ھر زبان کے فلم،ٹی،وی،اسٹیج،اور تھیٹر کے مشہور فنکاروں،قلمکاروں اور گائیکوں نے شرکت کی تھی۔یہ پروگرام پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور رشید صابر آرٹس سرکل کے جانب سے مشہور فلم،ٹی وی،ریڈیو،اوراسٹیج کے ادکار،رائٹر،ھدایت کار اور صداکار رشید صابر کے یاد میں منعقد ہوا تھا۔جس میں رشید صابر کے لکھے ہوئے ریڈیو ڈراموں پر کتاب کی تقریب رونمائی اور فنکاروں کو ایوارڈ تقسیم کیئے گئے تھے،پروگرام کے روح رواں رشید صابر کے ہونہار بیٹے رضوان صابر تھے،جو اس تصویر میں بھی نظر آرہے ہیں۔پروگرام میں بہت سے آرٹسٹوں اور قلم کاروں کو میرے ھاتھ سے ایوارڈ دیئے گئے ،جن میں قاضی واجد،وسیم راجہ،نصیر مرزا اور دوسرے شامل تھے جو میرے لیئے اعزاز تھا،اس تصویر میں میں جس شخص کو ایوارڈ دے رھا ہوں  یہ ماضی کے سندھی اور اردو فلموں کے خوبصورت ادکار وسیم  ہیں،وحید مراد کے ہمشکل ہونے کے وجہ سے وسیم  سندھی فلموں کے وحید مراد مشہور ہوئے،سندھی فلموں کا یہ چ
Recent posts

ایک تصویر،ایک کہانی،18:

ا س کہانی میں دو تصویریں ہیں،لیکن کہانی ایک ہے،یہ 1993 کی بات ہے،بی فکری کا زمانہ تھا،نہ گھر کی فکر اور نہ ہی نوکری کی پریشانی ،نوکری میں ہوتے ہوے اس کی کوئی پرواہ نہیں ،تھوڑی تنخواہ،پریشانیاں کم،گھر کی فکر اس لئے نہیں کہ ابو حیات تھے،ابو کی ایک بات مجھےاچھی لگتی تھی کہ،"نکلو اور دنیا دیکھو"،اس نے گھومنے سے کبھی بھی منع نہیں کیا،اس لئے گھر،رشتے کبھی پاؤں زنجیر نہیں بنے،جب میں نے پانچوی پاس کی تو رولاکیاں میرے زندگی کا حصہ بنی ،اکثر سفر اکیلے کئے،لیکن جن دوستوں کے ساتھ بہت سفر کئے ان میں مرتضی بلوچ اور منظور بلوچ شامل ہیں،ایک رات وہ میرے پاس آئے،کہا" کل صبح اذان کے وقت تیار رہنا ،بائے روڈ لاھور،اسلام آباد،مری اور کشمیر جانا ہے۔جتنے بھی کپڑے ہیں استری کر کے بیگ میں رکھنا"،میں کہا،" اتنی جلدی ،آفیس سے چھٹی ،پیسے "انہوں کہا، "کوئی بہانہ نہیں کل صبح اذان کے وقت ",میں نے پوچھا "اور کون کون ہیں؟"مرتضی نے کہا تین ھم،چوتھا رادھو گوٹھ والے اکبر جوکھیو"میں ان کے عادت سے واقف تھا،تیاری کے سواہ کوئی چارہ نہیں تھا،اس لیے پیکنگ کی،کچھ پیسے تھے

ایک تصویر ایک کہانی۔32

میں کتابوں کے دوکان میں جس شخص کے ساتھ بیٹھا ھوں یہ"عباسی کتاب گھر جھونا مارکیٹ "کے مالک حبیب حسین عباسی ہیں۔آج اس تاریخی کتاب گھر پر بات کرینگے،میرے والد صاحب سبزی منڈی میں کام کرتے تھے اور اس کی رھائش لیمارکیٹ میں تھی،کیونکہ لی مارکیٹ کراچی کے مضافات ،ٹھٹھ اور لسبیلہ کے لوگوں  کاایک  کاروباری مرکز تھا اور اب تک ھے۔ان علاقوں کے لئے بسیں یہاں سے چلتی تھیں اور آج بھی چلتی ہیں۔اس لیئے لی مارکیٹ اور جھونا مارکیٹ عیدین کے علاوہ دوسری تقریبات ،شادی بیاہ کی خریداری کے مرکز تھے،ساتھ ساتھ کریم اسٹوڈیو میں تصاویر کیچوانے کی سہولت تھی،بلوچی اور سندھی کے گانوں کے کیسٹ ملنے کی سہولت بھی تھی،۔جھونا مارکیٹ میں  مختلف بک شاپ جن میں عباسی کتاب گھر اور مکتبہ اسحاقیہ مشہور تھے۔جھونا مارکیٹ آدمی جائے اور پھول چوک پر کھتری کا حلوہ نہ کھائے اور گاؤں والوں کے لیئے حلوے کا تحفہ نہ لیے جائے تو بندہ گنہگار ھو جاتا تھا۔ساتھ میں نوری ھوٹل جہاں اکثر فلمی یونٹ کے لوگ رھائش پذیر ھوتے تھے ،کیونکہ ریڈ لائیٹ ایریا جسے حرف عام میں نپئیر روڈ کہا جاتا ھے ،نپئیر روڈ میں ریڈ لائیٹ کا علاقہ ھونے کے و

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

آج میں دھابیجی میں ھمارے دوست اور پرانے سیاسی ورکر ھوت خان کلمتی کے زوجہ کے وفات پر فاتح خوانی کے لئے اس کے گاؤں گیا،ھوت خان کے چھوٹے سے اوطاق میں لوگ مسلسل دعا کے لئے آرھے تھے،گوٹھ تک پہنچے کا راستہ ٹوٹا فوٹا تھا،میں نے ھوت خان سے پوچھا کہ،ضلع کونسل ٹھٹھہ میں سب آپ کے دوست ممبر ہیں ۔چئیرمین بھی آپ کا اور میرا دوست ہے اب اس ایک کلو میٹر سڑک کو پکا ھونا چائیے"ھوت خان مسکرا کر خاموش رھے ،اس کی خاموشی میں صدیوں کا درد میں نے محسوس کیا،پچاس سالوں سے وہ یہاں آباد ہیں ،پچاس سالوں میں یہ سڑک نہیں بن سکی اب کیا بنے گی،اس کی خاموشی کا یہ ھی جواب تھا۔کچھ دیر خاموش رھنے کے بعد ھوت خان نے مڑ کر میرے طرف دیکھا،اور جو بات کہی وہ ایک درد لیکر دل میں اتر گئی،اس نے کہا۔"سڑک اپنی جگہ اب ھم یہاں کے لوگ دوسری بار اپنے علاقوں سے ترقی کے نام پر ھجرت پر مجبور ھونگے۔"میں نے حیرانی اس کے طرف دیکھا،اس نے میری حیرانگی کو سمجھتے ھوئے ،اپنے اوطاق کے دائیں جانب لگے پتھروں کے طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا کہ "یہ حالیہ میں بحریا ٹاؤن انتظامیہ نے لگائے ہیں ،یہ پوری زمیں ریل کے پٹری سے نیشنل ھائے وے پ

ایک تصویر ایک کہانی:26

یہ تصویر جس کے ساتھ آپ کا یہ جپسی کھڑا ھے اپنے دور کے منگھو پیر کی مشھور برفت چوکنڈی ھے،جس پر انگریز تاریخ دانوں کے علاوہ ڈاکٹر کلیم لاشاری،شیخ خورشید حسن،علی احمد بروھی،بدر ابڑو،اس ناچیز نے بھی لکھا ھے، آج 30 جنوری 2018 کو پانچ سال بعد میں تیسری بار میں نے اس کا دورہ کیا،تاریخی مقامات کی بربادی دل خون آنسو رویا،اس پرانی قبرستان پر کچھ سالوں میں،چائنا کٹنگ کے ذریعے آفری گوٹھ بنایا گیا،پھر اس تاریخی قبرستان کے اندر نئے مردے دفنائے گئے،تاریخی قبروں کو م سمار کیا گیا ان کے قیمتی پتھر اٹھا کر لے گئے،کچھ پتھر میں نے گٹر کے ڈکن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دیکھے،اس تاریخی قبرستان میں ۲۵ سے زائد چوکنڈی طرز تعمیر کے منعقش قبریں تھی،،پرانی تصویر میں آپ دیکھ سکتے ھیں کے چوکنڈی کے امد کچھ قبریں ھیں ،نئے تصویر میں قبریں قیمتی پتھروں کے ساتھ غائب ھیں اور ساتھ میں کچھ اونچی قبریں ھیں یہ اب موجود نہیں ھے یہ بربادی گذشتہ پانچ سالوں میں ھوئی ھے،چوکنڈی ایک پلر پر اب بھی فارسی میں لکھا ھے۔"الھی خیر /مبلغ پنچ ھزار پنچ صد خرچ شدہ۔بر چوگنڈرا ملک صپدر ولد ملک ھارون برفت ملک دودھا ولد ھارون"۔ جو قب

ایک تصویر ایک کہانی،27

آج مورخہ 1 فروری 2018 کو میں نے دیھ بند مراد کا وزٹ کیا،اس تصویر کے پیچھے آپ کو ویرانی میں ایک بوت بنگلہ نظر آرھا ہے،یہ ضلع لوکل بورڈ کراچی کا ریسٹ ھائوس ہے،یہ ریسٹ ھائوس سن 1930 کو مکمل ھوا تھا،جب سائیں جی۰ایم سید ضلع لوکل بورڈ کا صدر منتخب ہوئے ، تو اس دور میں جی۰ایم سید نے یہ ریسٹ ھاؤس بنوایا تھا،یاد رھے کہ جی۰ایم سید۔ 1928 سے 1933 تک ضلع لوکل بورڈ کراچی صدر رھے ہیں،کیونکہ اس وقت محال مانجھند،محال کوھستان اور کوٹڑی کراچی لوکل بورڈ میں شامل تھے ۔سائین جی۰ایم سید کا گاؤں سن کراچی میں شامل تھا۔جب ریسٹ بنا تھا تو یہ پورا علائقہ سر سبز اور شاداب تھا،حب ندی اس کےپہلو سے گذر کر بہتی تھی،تصور کریں کیا عاشقانا منظر ھوگا،موجودہ اس ویران علاقے کا،فطرت کے پوجاریوں کے یہ اس جنت کا ٹکرا تھا۔یہ اس وقت کی بات ھے،جب حب ڈیم اور دریجی میں ڈیم بنے نہ تھے تو حب پورا سال بہتا تھا جس کے وجہ سے منگھو پیر سے گابو پٹ ،چھتارا اور میندیاری تک علائقہ آباد تھا اب سمندر میں میٹھا پانی نہیں گرتا تو سمندر کا پانی زیر زمین بڑھنے کی وجہ سے زیر زمین پانی کارا ھوا تو علائقے ویران ھو گئے۔یہ قدرت کا نظام ھے،جب ھم فطرت

ہاں ہم مجرم ہیں

کل(18-02-09)جب کراچی پریس کلب کے سامنے انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی کا بحریا ٹاؤن کے خلاف مظاھرہ ھو رھا تھا تو اسی دن ھمارے ایک دوست جو کالمیسٹ ھیں،محمد خان دائود اس نے ایک ایسی پوسٹ رکھی،جو پڑھنے کے بعد سوچتا رھا کہ ایک طرف ھر سو بحریا ٹاؤن جیسے بھڑیئے کے خلاف خاموشی ھے،ھمارے منتخب نمائندے اپنے عہدے اور سٹیں بچانے کے لئیے خاموش ہیں،ایسی وقت میں بحریا کا راکاس ھماری زمین،ھمارے قبرستان ،ھمارے گوٹھ،چراگاھیں ،تاریخی آثار،ندی نالے،پانی کی گذرگاھوں پر قبضہ کر رھا ھے،ھمارے قائدین چھوٹی چھوٹی عہدے ملنے پر مبارکباد دے رھے ھیں،ان کو اب ھوش آنا چاھئے کہ یہ عہدے اور پاور ان غریب لوگوں کے وجہ سے ھے،جو اب دربدر ھو رھے ھیں،ان لیڈروں سے ھم اب غلہ کرنا چھوڑ دیا ھے،لیکن اپنے آپ کو ملیر کا ھمدرد کہنے والے،ترقی پسند سوچ رکھنے والے ،اپنے کالموں میں ملیر کا رونا رونے والے،جن سے ھم جیسے ان پڑھ بہت کچھ سیکھنا چاھتے ھیں،ان کے بتائی ھوئے راہ پر چلنا چاھتے ،وہ اگر یہ لکھے کہ "آج کراچی پریس کلب پر ملیر کے مجرم جمع ھو رھے ہیں اور بحریا ٹاون تو بن گیا اب احتجاج کیا فائدہ"تو محمد خان دائود (جس کو پیار