Skip to main content

Posts

Showing posts from February, 2018

خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا

آج میں دھابیجی میں ھمارے دوست اور پرانے سیاسی ورکر ھوت خان کلمتی کے زوجہ کے وفات پر فاتح خوانی کے لئے اس کے گاؤں گیا،ھوت خان کے چھوٹے سے اوطاق میں لوگ مسلسل دعا کے لئے آرھے تھے،گوٹھ تک پہنچے کا راستہ ٹوٹا فوٹا تھا،میں نے ھوت خان سے پوچھا کہ،ضلع کونسل ٹھٹھہ میں سب آپ کے دوست ممبر ہیں ۔چئیرمین بھی آپ کا اور میرا دوست ہے اب اس ایک کلو میٹر سڑک کو پکا ھونا چائیے"ھوت خان مسکرا کر خاموش رھے ،اس کی خاموشی میں صدیوں کا درد میں نے محسوس کیا،پچاس سالوں سے وہ یہاں آباد ہیں ،پچاس سالوں میں یہ سڑک نہیں بن سکی اب کیا بنے گی،اس کی خاموشی کا یہ ھی جواب تھا۔کچھ دیر خاموش رھنے کے بعد ھوت خان نے مڑ کر میرے طرف دیکھا،اور جو بات کہی وہ ایک درد لیکر دل میں اتر گئی،اس نے کہا۔"سڑک اپنی جگہ اب ھم یہاں کے لوگ دوسری بار اپنے علاقوں سے ترقی کے نام پر ھجرت پر مجبور ھونگے۔"میں نے حیرانی اس کے طرف دیکھا،اس نے میری حیرانگی کو سمجھتے ھوئے ،اپنے اوطاق کے دائیں جانب لگے پتھروں کے طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا کہ "یہ حالیہ میں بحریا ٹاؤن انتظامیہ نے لگائے ہیں ،یہ پوری زمیں ریل کے پٹری سے نیشنل ھائے وے پ...

ایک تصویر ایک کہانی:26

یہ تصویر جس کے ساتھ آپ کا یہ جپسی کھڑا ھے اپنے دور کے منگھو پیر کی مشھور برفت چوکنڈی ھے،جس پر انگریز تاریخ دانوں کے علاوہ ڈاکٹر کلیم لاشاری،شیخ خورشید حسن،علی احمد بروھی،بدر ابڑو،اس ناچیز نے بھی لکھا ھے، آج 30 جنوری 2018 کو پانچ سال بعد میں تیسری بار میں نے اس کا دورہ کیا،تاریخی مقامات کی بربادی دل خون آنسو رویا،اس پرانی قبرستان پر کچھ سالوں میں،چائنا کٹنگ کے ذریعے آفری گوٹھ بنایا گیا،پھر اس تاریخی قبرستان کے اندر نئے مردے دفنائے گئے،تاریخی قبروں کو م سمار کیا گیا ان کے قیمتی پتھر اٹھا کر لے گئے،کچھ پتھر میں نے گٹر کے ڈکن کے طور پر استعمال کرتے ہوئے دیکھے،اس تاریخی قبرستان میں ۲۵ سے زائد چوکنڈی طرز تعمیر کے منعقش قبریں تھی،،پرانی تصویر میں آپ دیکھ سکتے ھیں کے چوکنڈی کے امد کچھ قبریں ھیں ،نئے تصویر میں قبریں قیمتی پتھروں کے ساتھ غائب ھیں اور ساتھ میں کچھ اونچی قبریں ھیں یہ اب موجود نہیں ھے یہ بربادی گذشتہ پانچ سالوں میں ھوئی ھے،چوکنڈی ایک پلر پر اب بھی فارسی میں لکھا ھے۔"الھی خیر /مبلغ پنچ ھزار پنچ صد خرچ شدہ۔بر چوگنڈرا ملک صپدر ولد ملک ھارون برفت ملک دودھا ولد ھارون"۔ جو قب...

ایک تصویر ایک کہانی،27

آج مورخہ 1 فروری 2018 کو میں نے دیھ بند مراد کا وزٹ کیا،اس تصویر کے پیچھے آپ کو ویرانی میں ایک بوت بنگلہ نظر آرھا ہے،یہ ضلع لوکل بورڈ کراچی کا ریسٹ ھائوس ہے،یہ ریسٹ ھائوس سن 1930 کو مکمل ھوا تھا،جب سائیں جی۰ایم سید ضلع لوکل بورڈ کا صدر منتخب ہوئے ، تو اس دور میں جی۰ایم سید نے یہ ریسٹ ھاؤس بنوایا تھا،یاد رھے کہ جی۰ایم سید۔ 1928 سے 1933 تک ضلع لوکل بورڈ کراچی صدر رھے ہیں،کیونکہ اس وقت محال مانجھند،محال کوھستان اور کوٹڑی کراچی لوکل بورڈ میں شامل تھے ۔سائین جی۰ایم سید کا گاؤں سن کراچی میں شامل تھا۔جب ریسٹ بنا تھا تو یہ پورا علائقہ سر سبز اور شاداب تھا،حب ندی اس کےپہلو سے گذر کر بہتی تھی،تصور کریں کیا عاشقانا منظر ھوگا،موجودہ اس ویران علاقے کا،فطرت کے پوجاریوں کے یہ اس جنت کا ٹکرا تھا۔یہ اس وقت کی بات ھے،جب حب ڈیم اور دریجی میں ڈیم بنے نہ تھے تو حب پورا سال بہتا تھا جس کے وجہ سے منگھو پیر سے گابو پٹ ،چھتارا اور میندیاری تک علائقہ آباد تھا اب سمندر میں میٹھا پانی نہیں گرتا تو سمندر کا پانی زیر زمین بڑھنے کی وجہ سے زیر زمین پانی کارا ھوا تو علائقے ویران ھو گئے۔یہ قدرت کا نظام ھے،جب ھم فطرت...

ہاں ہم مجرم ہیں

کل(18-02-09)جب کراچی پریس کلب کے سامنے انڈیجینس رائیٹس الائینس کراچی کا بحریا ٹاؤن کے خلاف مظاھرہ ھو رھا تھا تو اسی دن ھمارے ایک دوست جو کالمیسٹ ھیں،محمد خان دائود اس نے ایک ایسی پوسٹ رکھی،جو پڑھنے کے بعد سوچتا رھا کہ ایک طرف ھر سو بحریا ٹاؤن جیسے بھڑیئے کے خلاف خاموشی ھے،ھمارے منتخب نمائندے اپنے عہدے اور سٹیں بچانے کے لئیے خاموش ہیں،ایسی وقت میں بحریا کا راکاس ھماری زمین،ھمارے قبرستان ،ھمارے گوٹھ،چراگاھیں ،تاریخی آثار،ندی نالے،پانی کی گذرگاھوں پر قبضہ کر رھا ھے،ھمارے قائدین چھوٹی چھوٹی عہدے ملنے پر مبارکباد دے رھے ھیں،ان کو اب ھوش آنا چاھئے کہ یہ عہدے اور پاور ان غریب لوگوں کے وجہ سے ھے،جو اب دربدر ھو رھے ھیں،ان لیڈروں سے ھم اب غلہ کرنا چھوڑ دیا ھے،لیکن اپنے آپ کو ملیر کا ھمدرد کہنے والے،ترقی پسند سوچ رکھنے والے ،اپنے کالموں میں ملیر کا رونا رونے والے،جن سے ھم جیسے ان پڑھ بہت کچھ سیکھنا چاھتے ھیں،ان کے بتائی ھوئے راہ پر چلنا چاھتے ،وہ اگر یہ لکھے کہ "آج کراچی پریس کلب پر ملیر کے مجرم جمع ھو رھے ہیں اور بحریا ٹاون تو بن گیا اب احتجاج کیا فائدہ"تو محمد خان دائود (جس کو پیار ...

ایک تصویر ایک کہانی،29

دوستو آج کہانی ھیرانند لیپر(جذامی/کوڑ)اسپتال منگھو پیر کی۰سوچتا ھوں کیا لوگ تھے،جنہوں نے اپنی پوری زندگی انسانی خدمت میں گذار دی،ایسی خدمت جس میں ھر مذھب اور فرقے کے لوگوں کی بلا تفریق خدمت کی،یہ 1890 کی بات ھے جب سادو ھیرانند نے اپنے بھائی نول راء سے منگھو پیر کے گرم چشموں کے قریب زمین خریدی۔اس سے پہلے 1888میں دونوں بھائیوں نے سولجر بازار میں"یونین اکیڈمی قائم کی،بعد میں اس کا نام تبدیل کر کے "ھیرانند اکیڈمی"رکھا،ان کا تعلق برھمو سماج سے تھا،دونوں بھائیوں نے سماجی کاموں کے علاوہ ادب میں بھی نام پیدا کیا ،ھیرانند اکیڈمی بھی ایک ادبی اور ثقافتی اکیڈمی تھی۔یہ حیدرآباد مکھی شوقیرام آڈوانی کے بیٹے تھے۔نول راء کلرک سے ترقی کرتے ڈپٹی کلکٹر بنے،سماجی کاموں کے لئے "سندھ سبھا"نام تنظیم بنائی۔منگھو پیر کی زمین انہوں نے"سادو ھیرانند ٹرسٹ "بنا کر ٹرسٹ کے حوالے کے۔جذامی مریضوں کے لئے کوئی اسپتال نہ تھا تو انہوں نے جذامی اسپتال بنانے کا بیڑا اٹھایا اور کام شروع کیا،اسی دوران 1893 میں دونوں بھائی دیانت کر گئے۔ 1896میں اسپتال مکمل ھوا،مرکزی عمارت کے سوا دور...

ایک تصویر ایک کہانی ،30

یہ تصویر جس میں قبر پر انڈیجینس رائٹس الائنس کراچی کا وفد جس میں سید خدا ڈنو شاھ، راقم،غلام رسول بلوچ ،حمزہ پنھور،حیدر شاہ،امان اللہ جوکھیو کے علاوہ اللہ بخش گبول،رشید گبول پھول چڑھا رھے ہیں اوراس قبر کو سلامی دے رھے ہیں،یہ قبر اس بھادر انسان کی ہے،جس شخص نے بحریا (بھڑیا) ٹاؤن کے بلڈوزروں کے سامنے کھڑے ہوکر اپنی زمیں ،قبرستان اور گاؤں بچائے،آج وہ اس قبرستان میں ابدی نیند سو رھاہے۔اگر وہ یہ قبرستان اور گوٹھ نہ بچاتا تو نہ جانے کہاں دفن ہوتا کوئی بھی نہیں جانتا کہ فیض محمد بابلانی گبول کون ہے۔اپنے مزاحمتی کردار کے وجہ سے آج اس باغی کو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے بھادری کے وجہ سے پوری دنیا میں یاد کیا جا رھا ہے۔فیض محمد گبول المعروف فیضو گبول وہ پہلا شخص تھا جس نے مشہور قبضہ گروپ بحریا ٹاؤن کو اپنی آبائی زمین دینے سے انکار کیا ،جس کے پاداش میں اس ۸۵ سالا بوڑھے پر راؤ انوار اور اس کی ٹیم نے بے پناھ تشدد کیا،معزز آدمی کو ھت کڑیاں پہنا کر تھانو میں گھسیٹا گیا لیکن اس مجاھد نے مقابلا کیا،یہ اس وقت کی بات ھے جب وقت کے خداؤں کے سامنے کسی کو کھڑے ہونے کی ھمت نہ تھی،اچھے بھلے پیسے والے راج بھاگ وا...

ایک تصویر ایک کہانی،31

 ایک تصویر ایک کہانی،31 :سبھی چراغ مجھے پیشوا سمجھتے ہیں مجھے ہی جلنا پڑا ، ہر چراغ سے پہلے آج موڈ پرانی یادیں تازہ کرنے کا تھا،آج جب ضلع کونسل کراچی سے گھر کے لیئے رکشہ میں ملیر کینٹ روڈ تک سفر کیا ،یہ سفر 1997 کے بعد اس طرع کیا تھا۔1982 میں جب کراچی یونیورسٹی سے ایم۰ای ماس کام(اس وقت اس کو Journalism کہتے تھے)۔پاس کیا،مختلف محکموں میں خاک چھاننے کے سندھ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ جوائن کی،۱۹۸۳ میں ضلع کونس کراچی میں پی،آر۰او بھرتی ھوا ،گڈا پ ٹاؤن کا ٹی۰ ایم۰او اور ایڈمنسٹریٹر رھا،جب ضلع کونسل دوبارہ بحال ھو تو ریٹائر مینٹ تک ڈائریکٹر انفارمیشن رھا اور 19 گریڈ میں ریٹائر ھوا۔رکشہ گلشن کے پل پر سر سید یونیورسٹی کے سامنے خراب بھی ھوا،کچھ دیر رکنے کے بعد روانہ ھوا،ملیر کینٹ گیٹ تک رکشہ نے 250 روپئے لئے،وھاں سے میٹرو میں چستی ھوٹل سپر ھائے وے پہنچا 15 روپئے کرایہ ادا کیا،شو مئی قسمت میٹرو بھی دکہ اسٹارٹ ملا پھر غلامی جوکھیو کے رکشہ میں کونکر ولیج، رادھو گوٹھ موڑ تک 40 روپئے کرایہ ادا کر کے پہنچا، وھاں سے چار کلو میٹر پیدل چل کر گھر پہ...